دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پیر کو بچوں کی قبل از وقت پیدائش کی شرح میں کمی لانے کے لیے عالمی دن منایا گیا۔
اس دن کا مقصد قبل از وقت بچوں کی پیدائش کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے متعلق آگاہی بڑھانا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ بچے مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
یونیسف کے مطابق قبل از وقت بچوں کی پیدائش کی شرح کے حوالے سے پاکستان 184 ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں یونیسف کی سربراہ اینجیلا کارنئی نے ایک بیان میں کہا کہ قبل از وقت پیدائش کی شرح میں کمی سے بچوں کی اموات میں نمایاں کمی ممکن ہے۔
انھوں نے کہا کہ مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی کو بچانے کے لیے کم خرچ اور آزمودہ طریقے موجود ہیں۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں ماں اور بچے کی صحت کے شعبے کی سربراہ ڈاکڑ سیدہ بتول مظہر نے وائس امریکہ سے گفتگو میں
کہا کہ پاکستان میں بچوں کی قبل از وقت پیدائش ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔
انھوں نے اس مسئلے کی ایک وجہ غربت اور مناسب طبی سہولتوں کا فقدان بھی ہے۔
ڈاکٹر بتول کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران خواتین اپنا طبی معائنہ وقت پر کروائیں تو بچوں کی قبل از پیدائش کو روکنے میں مدد ملے گی۔ ’’حمل کے دوارن خواتین کو کم ازکم تین بار کسی تربیت یافتہ طبی کارکن کے پاس معائنے کے لیے ضرور جانا چاہیئے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ کئی ایسے طریقے اور ادویات دستیاب ہیں جن کی مدد سے قبل از وقت پیدائش کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
’’مختلف چیزیں ہیں، جس سے قبل از وقت پیدائش کو روکا جا سکتا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی وجہ قبل از وقت پیدائش کے باعث پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں ہیں۔
پاکستان میں حکومت کا کہنا ہے کہ ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے تمام بڑے سرکاری اسپتالوں کے علاوہ بنیادی صحت کے مراکز میں خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ تاکہ ماؤں اور نومولود بچوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔